جاب والی لڑکی

انسانی ذہن بھی کیا عجیب شے ہے کوئی بھی خیال ذہن میں ابر اتا ہے انسان ان گنت سوالوں کے جوابوں کو ڈھونڈ نے میں سر گرم ہے. کسی نے کہا عورت کو جاب کرنے کی کیا ضرورت ؟ عورت کا کام تو گھر سنبھالنا ہے... عورت کام کرے گی تو بچوں کا کیا ہوگا؟ ماں کی گود تو بچے کی پہلی درسگاہ ہے. گھر کا کیا ہوگا؟                                              
تو اچانک سے دل میں خیال آیا فانی بدایونی  بھی کیا خوب کہتے تھے                               
   زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
 ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
  وو بھی کیا وقت تھا جب مرد محنت کر کے کماتا تھا بیوی کما کر گر گھر لائے یہ اسے ناگوار گزرتا تھا .پس مرد اپنی کمائی عورت کے ہاتھ میں رکھتا اور عورت گھر کو سلیقہ شعاری سے چلانے کا ہنر جانتی تھی.
پھر وقت نے کروٹ لی اور وقت بدل گیا. مہنگائی کی وجہ سے بہت سی خواتین نے گھر سے باہر کام کرنے کو ترجیح دی. کچھ مغربی ممالک سے متاثر ھو کر عورت نے خود کما کر خرچ کرنے کو فخر جان لیا. یقین جانیں بہت سے ایسے گھرانے ہے جہاں بیٹی ایک بیٹے کی طرح کما کر پورے گھر کو سنبھال رہی ہے. ہر صبح اپ کو ویگن ٹیکسی اور بسوں میں مرد سے زیادہ خواتین سفر کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے  اور بڑی ہی عجلت میں  جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے دراصل وہ کام کے لئے جلدی میں نکلتے نکلتے دیر کر دیتی ہے. اور یوں آج ہمارامعاشرہ عورتوں کی ملازمت میں خود کفیل ھو گیا ہے.
پہلے تو رشتہ کرتے وقت مرد کی کمائی کی جانج کی جاتی تھی کہ مرد ہی تو عورت کا کفیل تھا اب ٹرینڈ بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے. کیونکہ ایک جریدے کے مطابق مرد خود کفیل خواتین کو زیادہ پسند کرتے ہے. اپ مرد بھی زیادہ پڑھی لکھی اور ملازمت کرنے والی خواتین کو بطور جیون ساتھی چننا پسند کرتے ہے. کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری نے معاشی صورتحال کو بگاڑ کر رکھ دیا. اب تو ایک گھر میں  دس کمانے والے ھو پر بھی کم پڑھ جاتا ہے. 
 بقول کالم نگار زبیر طیّب صاحب کے ایک مضمون فوربس کے جریدے میں نشر ہوا جو بہت ہی دلچسپ تھا مضمون کا عنوان تھا  "ملازمت پیشہ خواتین سے شادی مت کرو" مصنف نے کنواروں کو نصیحت کی کے چاہے گوری ھو یا کالی ھو ، موٹی ھو یا پتلی ، چوٹی یا دراز قامت والی کسی سے بھی کر لینا مگر ملازمت کرنی والی لڑکی سے شادی مت کرنا بھائیوں!!!  کیونکہ بقول مصنف کے ایسی لڑکی سے شادی کرنا خود کو مصیبت میں گرفتار کرنے کے  مترادف ہے. کیونکہ ملازمت کرنے والی عورت ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ جائے تو مصیبت ہے گھر میں پر اسکا دل نہی لگتا. اور اگر وہ مرد سے زیادہ کما کر لائے تو یہ بھی مرد ک دل کو کٹکتا ہے اور ایک اور انکشاف تو یہ بھی ک اکثر گھر گندا رہتا ہے .
ایک اور دلچسپ لمحہ فکریہ تو یہ بھی ہے کے اگر مرد اپنی بیوی یا مگیتر کو دفتر کے کسی صاحب کے ساتھ دیکھ لے تو دل پی آنا والا درد قیامت سے کم نہی ہوتا . اور اس طرح ملازمت کرنے والی خواتین کا اپنے شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی کم  دکھائی دیتی ہے اور ایک جریدے کی تحقیق کے مطابق ایسے جوڑوں میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے.
اسلام نے عورت کو اعلی مقام سے نوازا ہے . کام کرنا یا خود کفیل ہونا عورت کا حق ہے. اگر ایشیا کی خواتین تعلیم حاصل کر سکتی ہے تو کام کرنا اور  اس تعلیم سے فائدہ اٹھانا اور معاشی صورتحال کو بہتر کرنا ان کے عزائم میں شامل ہے. مگر اگر  عورت اپنے حددود کا تعین کر لے اور عزت سے کما کر اپنی خوابوں کی تکمیل  کرنا چاہتے تو کسی مرد کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے. میری نظر میں مرد اور عورت معاشرے کے دو ستون ہے جن پر معاشرے کی عمارت کڑھی ہے ان کی مثال تو ایک پرندے کی مانند ہے مرد اور عورت پرندے ک دو پر ہے دونوں ساتھ ھو تبھی اڈان ممکن ہے. پس اگر مرد چاہے تو عورت کا ساتھ دے کر یہ ممکن کر سکتا ہے،
اگر مرد کے خیال میں عورت صرف گھر ہی کی محافظ ہے تو یہ سوچ اچھی ہے ایسے مرد کو اپنے لئے ایسی عورت کا انتخاب کرنا چائے جو اس کی طرح اسی المیےپر یقین  رکھتی ھو. اور بیشک  وہ ایک  گریلو عورت ھو، نہ کہ ایسی عورت جو ہزاروں خوابوں کو دل میں رکھ اڈان برنے والی ھو. خواب دیکھنا اور اپنے  لئے اچھا سوچھنا سب کا بنیادی حق ہے، پس اگر غلطی سے محبت ھو بھی جائے ایسی خاتون سے تو محبت کی قیمت نہ مانگی جائے. رشتوں کی خوبصورتی تو ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے میں اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے میں ہے . تبھی تو ایک مکمل معاشرہ تعمیر ہوتا ہے. 

Comments

  1. Waooow great idea, great writing... Isy muashi tabdeli, waqt ki zarirat ya Mard ki Kamzori...🤔

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular Posts